ولی اللہ کی پہچان اور ولایت الٰہی کی شان
حضرت ابوعلی جرجانی ؒ فرماتے ہیں: ولی وہ ہے جو اپنے حال سے فانی اور مشاہدہ حق میں باقی ہو، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذت کی کوئی بات کرے، یا اللہ کے سوا کسی اور سے آرام و سکون پائے۔
حضرت جنید ؒ فرماتے ہیں:
ولی وہ ہے جسے کوئی خوف نہیں ہوتا، اس لئے کہ خوف اس چیز سے ہوتا ہے، جس کے آنے سے دل ناگواری محسوس کرتا ہو، یا وجود پر اس کا بوجھ پڑتا ہو، یا جو محبوب اس کے ساتھ ہے، س کے جدا ہونے سے ڈرتا ہے، اور ولی صاحبِ وقت ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو امید (رجا) بھی نہیں ہوتی، اس لئے کہ امید اس پسندیدہ چیز کی ہوتی ہے، جس کا انسان دوسرے آئندہ وقت میں خواہش مند ہو یا ناپسندیدہ چیز کے دفع ہونے اور مٹنے کی امید ہوتی ہے، اور اسے کوئی غم بھی نہیں ہوتا، اس لئے کہ غم وقت کی کدورت سے پیدا ہوتا ہے، جو شخص رضا کے مقام پر فائز ہو یا موافقت کو اپنا مسلک بنا چکا ہو، وہ غم کس چیز کا کھائے گا؟
حضرت ابوعثمان مغربی ؒ فرماتے ہیں:
’’ولی لوگوں میں مشہور ہوتا ہے مگر دنیا کا اسیر نہیں ہوتا‘‘۔
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں:
’’ولی پوشیدہ ہوتا ہے، مشہور نہیں ہوتا‘‘۔ یعنی ولی وہ ہوتا ہے جو شہرت سے پرہیز کرے، اس لئے کہ شہرت میں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوعثمان ؒ کے نزدیک شہرت جائز ہے، اس صورت میں کہ فتنے کا باعث نہ ہو۔ اس لئے کہ فتنہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے، اور ولی تو اپنی ولایت میں صادق ہوتا ہے، جھوٹے پر ولایت کے لفظ کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے، جھوٹے کے ہاتھ پر کرامت کا ظہور بھی محال ہے، تاکہ اس سے فتنہ نہ پھیلے۔
یہ دونوں اقوال پھر اسی بات سے متعلق ہو جاتے ہیں کہ ولی کو اپنے ولی ہونے کا علم نہیں ہوتا، کیونکہ اگر اسے اپنے ولی ہونے کا علم ہو تو وہ مشہور ہوگا اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ جانتا ہو تو مفتون ہوگا، اس کی تشریح خاصی طویل ہے۔
حضرت ابراہیم ادھمؒ نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تم ولی اللہ بننا چاہتے ہو، اس نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا :’’دنیا و آخرت کی رغبت چھوڑ دے، اس لئے کہ دنیا کی رغبت ایک فانی چیز کی خاطر اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنا ہے، اور آخرت کی رغبت ایک باقی رہنے والی چیز کی خاطر اللہ سے روگردانی کرنا ہے، اگر فانی چیز سے اعراض ہے تو فانی کے فنا ہونے کے ساتھ یہ اعراض بھی باقی نہ رہے گا، لیکن اگر باقی رہنے والی چیز سے اعراض ہے تو اس پر فنا نہیں ہو گی۔ چنانچہ اس کے اعراض پر بھی فنا نہیں ہو گی، لہٰذا اپنے آپ کو دونوں جہان سے فارغ کر کے اللہ کی دوستی کے لئے تیار کرو، اور دنیا و آخرت کو اپنے دل میں راہ نہ دو، اور خدا کی طرف دلی توجہ کرو، تیرے اندر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو ولایت دور نہیں‘‘۔
حضرت ابویزید بسطامی ؒ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ولی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے امرونہی پر قائم رہے‘‘۔ اس لئے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہو گی اس کے دل میں اللہ کے حکم کی عظمت بھی زیادہ ہو گی، اور اس کا جسم بھی اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی نہی سے دور ہوگا۔
حضرت بایزید بسطامی ؒ کا بیان ہے کہ ’’ایک دفعہ مجھے لوگوں نے بتایا کہ فلاں شہر میں ایک ولی اللہ موجود ہے، میں اس کی زیارت کے لئے روانہ ہوا، اُس کی مسجد میں پہنچا، تو اتفاق سے وہ بھی گھر سے مسجد میں آیا، آتے ہی اس نے مسجد میں تھوکا ، میں وہیں سے بغیر سلام و کلام کے واپس ہو گیا، میں نے کہا ولی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پابندی کرے، تاکہ حق تعالیٰ اس کی ولایت کی حفاظت کرتا رہے، اگر یہ شخص ولی اللہ ہوتا تو مسجد میں نہ تھوکتا۔ مسجد کی عزت و حرمت کا خیال کرتا، یا اللہ تعالیٰ اسے اس بات سے محفوظ رکھتا۔ اسی رات میں نے خواب میں آنحضورﷺ کی زیارت کی، آپؐ نے فرمایا، بایزید! تم نے جو کام کیا ہے، اس کی برکتیں تمہیں پہنچ گئی ہیں، اس سے اگلے دن ہی میں اس درجے کو پہنچ گیا، جس پر تم سب لوگ مجھے دیکھ رہے ہو‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ شیخ ابوسعیدؒ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے مسجد میں پہلے بایاں پاؤں رکھا، آپ نے فرمایا اسے واپس کرو، کیونکہ جو شخص محبوب کے گھر میں داخل ہونے کے آداب بھی نہیں جانتا، وہ ہمارے کام کا نہیں۔
حضرت ابوعلی جرجانی ؒ فرماتے ہیں: ولی وہ ہے جو اپنے حال سے فانی اور مشاہدہ حق میں باقی ہو، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذت کی کوئی بات کرے، یا اللہ کے سوا کسی اور سے آرام و سکون پائے۔
حضرت جنید ؒ فرماتے ہیں:
ولی وہ ہے جسے کوئی خوف نہیں ہوتا، اس لئے کہ خوف اس چیز سے ہوتا ہے، جس کے آنے سے دل ناگواری محسوس کرتا ہو، یا وجود پر اس کا بوجھ پڑتا ہو، یا جو محبوب اس کے ساتھ ہے، س کے جدا ہونے سے ڈرتا ہے، اور ولی صاحبِ وقت ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو امید (رجا) بھی نہیں ہوتی، اس لئے کہ امید اس پسندیدہ چیز کی ہوتی ہے، جس کا انسان دوسرے آئندہ وقت میں خواہش مند ہو یا ناپسندیدہ چیز کے دفع ہونے اور مٹنے کی امید ہوتی ہے، اور اسے کوئی غم بھی نہیں ہوتا، اس لئے کہ غم وقت کی کدورت سے پیدا ہوتا ہے، جو شخص رضا کے مقام پر فائز ہو یا موافقت کو اپنا مسلک بنا چکا ہو، وہ غم کس چیز کا کھائے گا؟
حضرت ابوعثمان مغربی ؒ فرماتے ہیں:
’’ولی لوگوں میں مشہور ہوتا ہے مگر دنیا کا اسیر نہیں ہوتا‘‘۔
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں:
’’ولی پوشیدہ ہوتا ہے، مشہور نہیں ہوتا‘‘۔ یعنی ولی وہ ہوتا ہے جو شہرت سے پرہیز کرے، اس لئے کہ شہرت میں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوعثمان ؒ کے نزدیک شہرت جائز ہے، اس صورت میں کہ فتنے کا باعث نہ ہو۔ اس لئے کہ فتنہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے، اور ولی تو اپنی ولایت میں صادق ہوتا ہے، جھوٹے پر ولایت کے لفظ کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے، جھوٹے کے ہاتھ پر کرامت کا ظہور بھی محال ہے، تاکہ اس سے فتنہ نہ پھیلے۔
یہ دونوں اقوال پھر اسی بات سے متعلق ہو جاتے ہیں کہ ولی کو اپنے ولی ہونے کا علم نہیں ہوتا، کیونکہ اگر اسے اپنے ولی ہونے کا علم ہو تو وہ مشہور ہوگا اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ جانتا ہو تو مفتون ہوگا، اس کی تشریح خاصی طویل ہے۔
حضرت ابراہیم ادھمؒ نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تم ولی اللہ بننا چاہتے ہو، اس نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا :’’دنیا و آخرت کی رغبت چھوڑ دے، اس لئے کہ دنیا کی رغبت ایک فانی چیز کی خاطر اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنا ہے، اور آخرت کی رغبت ایک باقی رہنے والی چیز کی خاطر اللہ سے روگردانی کرنا ہے، اگر فانی چیز سے اعراض ہے تو فانی کے فنا ہونے کے ساتھ یہ اعراض بھی باقی نہ رہے گا، لیکن اگر باقی رہنے والی چیز سے اعراض ہے تو اس پر فنا نہیں ہو گی۔ چنانچہ اس کے اعراض پر بھی فنا نہیں ہو گی، لہٰذا اپنے آپ کو دونوں جہان سے فارغ کر کے اللہ کی دوستی کے لئے تیار کرو، اور دنیا و آخرت کو اپنے دل میں راہ نہ دو، اور خدا کی طرف دلی توجہ کرو، تیرے اندر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو ولایت دور نہیں‘‘۔
حضرت ابویزید بسطامی ؒ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ولی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے امرونہی پر قائم رہے‘‘۔ اس لئے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہو گی اس کے دل میں اللہ کے حکم کی عظمت بھی زیادہ ہو گی، اور اس کا جسم بھی اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی نہی سے دور ہوگا۔
حضرت بایزید بسطامی ؒ کا بیان ہے کہ ’’ایک دفعہ مجھے لوگوں نے بتایا کہ فلاں شہر میں ایک ولی اللہ موجود ہے، میں اس کی زیارت کے لئے روانہ ہوا، اُس کی مسجد میں پہنچا، تو اتفاق سے وہ بھی گھر سے مسجد میں آیا، آتے ہی اس نے مسجد میں تھوکا ، میں وہیں سے بغیر سلام و کلام کے واپس ہو گیا، میں نے کہا ولی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پابندی کرے، تاکہ حق تعالیٰ اس کی ولایت کی حفاظت کرتا رہے، اگر یہ شخص ولی اللہ ہوتا تو مسجد میں نہ تھوکتا۔ مسجد کی عزت و حرمت کا خیال کرتا، یا اللہ تعالیٰ اسے اس بات سے محفوظ رکھتا۔ اسی رات میں نے خواب میں آنحضورﷺ کی زیارت کی، آپؐ نے فرمایا، بایزید! تم نے جو کام کیا ہے، اس کی برکتیں تمہیں پہنچ گئی ہیں، اس سے اگلے دن ہی میں اس درجے کو پہنچ گیا، جس پر تم سب لوگ مجھے دیکھ رہے ہو‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ شیخ ابوسعیدؒ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے مسجد میں پہلے بایاں پاؤں رکھا، آپ نے فرمایا اسے واپس کرو، کیونکہ جو شخص محبوب کے گھر میں داخل ہونے کے آداب بھی نہیں جانتا، وہ ہمارے کام کا نہیں۔
No comments:
Post a Comment
All The Best for