اولیاء کرام کی اقسام
1۔ سالک
2۔ مجذوب
3۔ قلندر
یہ سب ولائیت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ، ایک مشترک لفظ ’ ولی ‘ ان سب کے لئے بولا جاتا ہے ۔ ان کو پھر ہر درویش نے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ان میں سے بعض ظاہری کام پر تعینات ہوتے ہیں ۔ اور بعض کو صرف باطنی کام کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں ۔
1۔ سالک :
راہِ سلوک میں رہ کر ظاہری شرع پر عمل کرنے والا سالک کہلاتا ہے۔ یہ شرع پر کاربند رہتا ہے ۔تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر طریقت کو عام کرتا ہے۔ اس کا مقام انتہائی اہم اور اعلیٰ ہے ۔اس پر تمام کیفیات گزرتی ہیں ۔ یہ ہوش میں رہ کر ہوش مندوں کی صحیح تربیت کرتا ہے۔ اس کا سلسلہ ہوتا ہے اور مریدین ہوتے ہیں ۔عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور شریعت اور طریقت کی مے انہیں ان کے میخانوں سے پلائی جاتی ہے۔ سلسلے کا معنی اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھ کر، انکی اتباع کر کے اللہ کے راستے کا پتہ چلاناہے۔
2۔ مجذوب :
جذب شدہ ۔ اللہ کی محبت میں جذب شدہ ایسا اللہ کا دوست جو اپنی ذات کی نفی کر کے اسی اللہ کی ذات میں ضم ہو گیا ہو ۔ اس پر ظاہری شرع ساقط ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ شریعت ہوش مند پر لا گو ہوتی ہے ۔یہ ظاہری اعتبار سے بے ہوش ہوتا ہے.
مجذوب کا سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مریدین ۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتا ہے ۔جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں.
مجذوب مانگنے والا نہیں ہوتااور نہ ہی کبھی اپنی خواہشِ نفس سے مانگتا ہے ایک سے لے کر دوسرے کو دے دیتا ہے اسی طرح کسی کے پاس زادِ سفر نہ تھا تو مجذوب نے کسی ایک سے لیا اور جِس کے پاس زادِ سفر نہ تھا اس کو دے دیا ۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت ، ہر ہر ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے ۔ ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے ۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا ۔ کسی کو گالی دے دے گا ۔ مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے.
3۔ قلندر :
یہ سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے ۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا ۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا ۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے ۔ قلندر پر جذب غالب
ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں ۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالب آگئیں تو اہل ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سےآزاد ہے ۔
قلندر کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت تفکر اور مراقبہ
میں رہتا ہے۔ قلندر کو دنیا کی وضع اور رسوم کی پرواہ نہیں ہوتی ۔
اس کا دِل صاف اور سادہ ہوتا ہے۔ اس کی آرزویہ ہوتی ہے کہ خُدا
سے تعلق قائم کر کے باقی سب کو ترک کر دیا جائے۔''
مفلس کے لئے ہے نہ تونگر کے لئے ہے
کونین کی ہر شے تو قلندر کے لئے ہے
قلندر سے ایک مراد ’ کُل اندر ‘ بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ عالمین اور کُل جہاں اس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے
1۔ سالک
2۔ مجذوب
3۔ قلندر
یہ سب ولائیت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ، ایک مشترک لفظ ’ ولی ‘ ان سب کے لئے بولا جاتا ہے ۔ ان کو پھر ہر درویش نے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ان میں سے بعض ظاہری کام پر تعینات ہوتے ہیں ۔ اور بعض کو صرف باطنی کام کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں ۔
1۔ سالک :
راہِ سلوک میں رہ کر ظاہری شرع پر عمل کرنے والا سالک کہلاتا ہے۔ یہ شرع پر کاربند رہتا ہے ۔تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر طریقت کو عام کرتا ہے۔ اس کا مقام انتہائی اہم اور اعلیٰ ہے ۔اس پر تمام کیفیات گزرتی ہیں ۔ یہ ہوش میں رہ کر ہوش مندوں کی صحیح تربیت کرتا ہے۔ اس کا سلسلہ ہوتا ہے اور مریدین ہوتے ہیں ۔عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور شریعت اور طریقت کی مے انہیں ان کے میخانوں سے پلائی جاتی ہے۔ سلسلے کا معنی اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھ کر، انکی اتباع کر کے اللہ کے راستے کا پتہ چلاناہے۔
2۔ مجذوب :
جذب شدہ ۔ اللہ کی محبت میں جذب شدہ ایسا اللہ کا دوست جو اپنی ذات کی نفی کر کے اسی اللہ کی ذات میں ضم ہو گیا ہو ۔ اس پر ظاہری شرع ساقط ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ شریعت ہوش مند پر لا گو ہوتی ہے ۔یہ ظاہری اعتبار سے بے ہوش ہوتا ہے.
مجذوب کا سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مریدین ۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتا ہے ۔جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں.
مجذوب مانگنے والا نہیں ہوتااور نہ ہی کبھی اپنی خواہشِ نفس سے مانگتا ہے ایک سے لے کر دوسرے کو دے دیتا ہے اسی طرح کسی کے پاس زادِ سفر نہ تھا تو مجذوب نے کسی ایک سے لیا اور جِس کے پاس زادِ سفر نہ تھا اس کو دے دیا ۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت ، ہر ہر ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے ۔ ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے ۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا ۔ کسی کو گالی دے دے گا ۔ مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے.
3۔ قلندر :
یہ سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے ۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا ۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا ۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے ۔ قلندر پر جذب غالب
ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں ۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالب آگئیں تو اہل ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سےآزاد ہے ۔
قلندر کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت تفکر اور مراقبہ
میں رہتا ہے۔ قلندر کو دنیا کی وضع اور رسوم کی پرواہ نہیں ہوتی ۔
اس کا دِل صاف اور سادہ ہوتا ہے۔ اس کی آرزویہ ہوتی ہے کہ خُدا
سے تعلق قائم کر کے باقی سب کو ترک کر دیا جائے۔''
مفلس کے لئے ہے نہ تونگر کے لئے ہے
کونین کی ہر شے تو قلندر کے لئے ہے
قلندر سے ایک مراد ’ کُل اندر ‘ بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ عالمین اور کُل جہاں اس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے
No comments:
Post a Comment
All The Best for