Monday, 29 October 2018

صلو علیه وآله صلو علیہ وآلہ

حضرت امیر خسرو رحمته الله علیه نے ایک بار بہت خوبصورت نعتیه رباعی لکھی اور حضرت نظام الدین اولیاء رحمته الله علیه کی خدمت میں پیش کی . حضرت نے رباعی سن کر فرمایا " خسرو ! رباعی خوب هے لیکن سعدی رحمة الله عليه کی جو رباعی هے بلغ العلے بکماله ، اسکا جواب نہیں " اگلے دن حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے پہلے سے زیادہ محنت سے مزید اچھی رباعی لکھی اور پیرو مرشد کو سنائی تو انھوں نے سن کر پھر فرمایا که خسرو رباعی خوب هے لیکن سعدی کی رباعی کا جواب نہیں . حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے کئی بار محنت کی لیکن پیرو مرشد هر بار یہی فرماتے که خسرو ! رباعی خوب هے لیکن سعدی رحمة الله عليه کی رباعی کا جواب نہیں . آخر ایک دن حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے عرض کی " سیدی ! سعدی رحمة الله عليه نے بھی نعتیه رباعی لکھی اور میں بھی کئی دن سے نعت لکھ کر پیش کر رها هوں لیکن آپ هر بار یہی فرماتے هیں که سعدی رحمة الله عليه کی رباعی کا جواب نہیں ، ایسا کیوں هے ؟ پیرو مرشد نے فرمایا ، اچھا ، جاننا چاهتے هو تو آج آدھی رات کے وقت آنا . چنانچہ امیر خسرو رحمة الله عليه آدھی رات کے وقت حاضر خدمت هوئے تو مرشد کو وظائف میں مشغول پایا . فرمایا ، " خسرو ! ادھر آؤ ، میرے پاس بیٹھو اور مرشد کی توجه هوئی اور حضرت امیر خسرو رحمة الله عليه نے دیکھا که دربار رسالت صلی الله علیه وآله وسلم آراستہ هے صحابه کرام اور هزاروں اولیاء کرام موجود هیں . شیخ سعدی رحمة الله عليه دربار میں موجود هیں اور پڑھ رهے هیں ، بلغ العلے بکماله ، کشف الدجا بجماله حسنت جمیع خصاله صلو علیه وآله ... صلو علیه وآله اور نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم فرما رهے هیں ، سعدی ! پھر پڑھو ، سعدی رحمة الله عليه کہتے هیں لبیک یا سیدی ! اور پھر رباعی پڑهنے لگتے هیں ، رباعی ختم هوتی هے اور نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم فرماتے هیں ، سعدی ! پھر پڑھو اور سعدی پھر پڑھنے لگتے هیں . یه دیکھ کر امیر خسرو رحمة الله عليه نے عرض کیا ، پیرو مرشد ! لکھتا تو میں بھی خوب هوں لیکن سعدی کی رباعی کا جواب نہیں. اور واقعی اس رباعی کا جواب نہیں . کہتے هیں جب حضرت سعدی نے یه رباعی لکھی تو تین مصرعے لکھ لئے ، بلغ العلے بکماله کشف الدجا بجماله حسنت جمیع خصاله لیکن چوتھا مصرع موزوں نہیں هو رها تها اسی پریشانی میں سو گئے تو خواب میں نبی کریم صلی الله علیه وآله وسلم کی زیارت کی اور دیکھا که سرکار صلی الله علیه وآله وسلم فرما رهے هیں ، سعدی کہتے کیوں نہیں ، صلو علیه وآله تب سے یه رباعی زبان زد عام هے اور آج بھی اس کی مقبولیت میں فرق نہیں آیا. بلغ العلے بکماله ، کشف الدجا بجماله حسنت جمیع خصاله صلو علیه وآله صلو علیہ وآلہ..

Sunday, 28 October 2018

ولی اللہ کی پہچان اور ولایت الٰہی کی شان

ولی اللہ کی پہچان اور ولایت الٰہی کی شان
حضرت ابوعلی جرجانی ؒ فرماتے ہیں: ولی وہ ہے جو اپنے حال سے فانی اور مشاہدہ حق میں باقی ہو، اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذت کی کوئی بات کرے، یا اللہ کے سوا کسی اور سے آرام و سکون پائے۔
حضرت جنید ؒ فرماتے ہیں:
ولی وہ ہے جسے کوئی خوف نہیں ہوتا، اس لئے کہ خوف اس چیز سے ہوتا ہے، جس کے آنے سے دل ناگواری محسوس کرتا ہو، یا وجود پر اس کا بوجھ پڑتا ہو، یا جو محبوب اس کے ساتھ ہے، س کے جدا ہونے سے ڈرتا ہے، اور ولی صاحبِ وقت ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو امید (رجا) بھی نہیں ہوتی، اس لئے کہ امید اس پسندیدہ چیز کی ہوتی ہے، جس کا انسان دوسرے آئندہ وقت میں خواہش مند ہو یا ناپسندیدہ چیز کے دفع ہونے اور مٹنے کی امید ہوتی ہے، اور اسے کوئی غم بھی نہیں ہوتا، اس لئے کہ غم وقت کی کدورت سے پیدا ہوتا ہے، جو شخص رضا کے مقام پر فائز ہو یا موافقت کو اپنا مسلک بنا چکا ہو، وہ غم کس چیز کا کھائے گا؟
حضرت ابوعثمان مغربی ؒ فرماتے ہیں:
’’ولی لوگوں میں مشہور ہوتا ہے مگر دنیا کا اسیر نہیں ہوتا‘‘۔
ایک اور بزرگ فرماتے ہیں:
’’ولی پوشیدہ ہوتا ہے، مشہور نہیں ہوتا‘‘۔ یعنی ولی وہ ہوتا ہے جو شہرت سے پرہیز کرے، اس لئے کہ شہرت میں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت ابوعثمان ؒ کے نزدیک شہرت جائز ہے، اس صورت میں کہ فتنے کا باعث نہ ہو۔ اس لئے کہ فتنہ جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے، اور ولی تو اپنی ولایت میں صادق ہوتا ہے، جھوٹے پر ولایت کے لفظ کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے، جھوٹے کے ہاتھ پر کرامت کا ظہور بھی محال ہے، تاکہ اس سے فتنہ نہ پھیلے۔
یہ دونوں اقوال پھر اسی بات سے متعلق ہو جاتے ہیں کہ ولی کو اپنے ولی ہونے کا علم نہیں ہوتا، کیونکہ اگر اسے اپنے ولی ہونے کا علم ہو تو وہ مشہور ہوگا اور اگر وہ اپنے آپ کو نہ جانتا ہو تو مفتون ہوگا، اس کی تشریح خاصی طویل ہے۔
حضرت ابراہیم ادھمؒ نے ایک شخص سے پوچھا کہ کیا تم ولی اللہ بننا چاہتے ہو، اس نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا :’’دنیا و آخرت کی رغبت چھوڑ دے، اس لئے کہ دنیا کی رغبت ایک فانی چیز کی خاطر اللہ تعالیٰ سے روگردانی کرنا ہے، اور آخرت کی رغبت ایک باقی رہنے والی چیز کی خاطر اللہ سے روگردانی کرنا ہے، اگر فانی چیز سے اعراض ہے تو فانی کے فنا ہونے کے ساتھ یہ اعراض بھی باقی نہ رہے گا، لیکن اگر باقی رہنے والی چیز سے اعراض ہے تو اس پر فنا نہیں ہو گی۔ چنانچہ اس کے اعراض پر بھی فنا نہیں ہو گی، لہٰذا اپنے آپ کو دونوں جہان سے فارغ کر کے اللہ کی دوستی کے لئے تیار کرو، اور دنیا و آخرت کو اپنے دل میں راہ نہ دو، اور خدا کی طرف دلی توجہ کرو، تیرے اندر یہ اوصاف پیدا ہو جائیں تو ولایت دور نہیں‘‘۔
حضرت ابویزید بسطامی ؒ سے پوچھا گیا کہ ولی کون ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’ولی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے امرونہی پر قائم رہے‘‘۔ اس لئے کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہو گی اس کے دل میں اللہ کے حکم کی عظمت بھی زیادہ ہو گی، اور اس کا جسم بھی اسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی نہی سے دور ہوگا۔
حضرت بایزید بسطامی ؒ کا بیان ہے کہ ’’ایک دفعہ مجھے لوگوں نے بتایا کہ فلاں شہر میں ایک ولی اللہ موجود ہے، میں اس کی زیارت کے لئے روانہ ہوا، اُس کی مسجد میں پہنچا، تو اتفاق سے وہ بھی گھر سے مسجد میں آیا، آتے ہی اس نے مسجد میں تھوکا ، میں وہیں سے بغیر سلام و کلام کے واپس ہو گیا، میں نے کہا ولی کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی پابندی کرے، تاکہ حق تعالیٰ اس کی ولایت کی حفاظت کرتا رہے، اگر یہ شخص ولی اللہ ہوتا تو مسجد میں نہ تھوکتا۔ مسجد کی عزت و حرمت کا خیال کرتا، یا اللہ تعالیٰ اسے اس بات سے محفوظ رکھتا۔ اسی رات میں نے خواب میں آنحضورﷺ کی زیارت کی، آپؐ نے فرمایا، بایزید! تم نے جو کام کیا ہے، اس کی برکتیں تمہیں پہنچ گئی ہیں، اس سے اگلے دن ہی میں اس درجے کو پہنچ گیا، جس پر تم سب لوگ مجھے دیکھ رہے ہو‘‘۔
کہا جاتا ہے کہ شیخ ابوسعیدؒ کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے مسجد میں پہلے بایاں پاؤں رکھا، آپ نے فرمایا اسے واپس کرو، کیونکہ جو شخص محبوب کے گھر میں داخل ہونے کے آداب بھی نہیں جانتا، وہ ہمارے کام کا نہیں۔

Allah K Walion Ki Aqsaam

اولیاء کرام کی اقسام
1۔ سالک
2۔ مجذوب
3۔ قلندر
یہ سب ولائیت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ، ایک مشترک لفظ ’ ولی ‘ ان سب کے لئے بولا جاتا ہے ۔ ان کو پھر ہر درویش نے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ان میں سے بعض ظاہری کام پر تعینات ہوتے ہیں ۔ اور بعض کو صرف باطنی کام کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ یہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں ۔
1۔ سالک :
راہِ سلوک میں رہ کر ظاہری شرع پر عمل کرنے والا سالک کہلاتا ہے۔ یہ شرع پر کاربند رہتا ہے ۔تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر طریقت کو عام کرتا ہے۔ اس کا مقام انتہائی اہم اور اعلیٰ ہے ۔اس پر تمام کیفیات گزرتی ہیں ۔ یہ ہوش میں رہ کر ہوش مندوں کی صحیح تربیت کرتا ہے۔ اس کا سلسلہ ہوتا ہے اور مریدین ہوتے ہیں ۔عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور شریعت اور طریقت کی مے انہیں ان کے میخانوں سے پلائی جاتی ہے۔ سلسلے کا معنی اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھ کر، انکی اتباع کر کے اللہ کے راستے کا پتہ چلاناہے۔
2۔ مجذوب :
جذب شدہ ۔ اللہ کی محبت میں جذب شدہ ایسا اللہ کا دوست جو اپنی ذات کی نفی کر کے اسی اللہ کی ذات میں ضم ہو گیا ہو ۔ اس پر ظاہری شرع ساقط ہو جاتی ہے ۔ کیونکہ شریعت ہوش مند پر لا گو ہوتی ہے ۔یہ ظاہری اعتبار سے بے ہوش ہوتا ہے.
مجذوب کا سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مریدین ۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتا ہے ۔جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں.
مجذوب مانگنے والا نہیں ہوتااور نہ ہی کبھی اپنی خواہشِ نفس سے مانگتا ہے ایک سے لے کر دوسرے کو دے دیتا ہے اسی طرح کسی کے پاس زادِ سفر نہ تھا تو مجذوب نے کسی ایک سے لیا اور جِس کے پاس زادِ سفر نہ تھا اس کو دے دیا ۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت ، ہر ہر ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے ۔ ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے ۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا ۔ کسی کو گالی دے دے گا ۔ مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے.
3۔ قلندر :
یہ سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے ۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا ۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا ۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے ۔ قلندر پر جذب غالب
ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں ۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں ۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالب آگئیں تو اہل ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سےآزاد ہے ۔
قلندر کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ ہمہ وقت تفکر اور مراقبہ
میں رہتا ہے۔ قلندر کو دنیا کی وضع اور رسوم کی پرواہ نہیں ہوتی ۔
اس کا دِل صاف اور سادہ ہوتا ہے۔ اس کی آرزویہ ہوتی ہے کہ خُدا
سے تعلق قائم کر کے باقی سب کو ترک کر دیا جائے۔''
مفلس کے لئے ہے نہ تونگر کے لئے ہے
کونین کی ہر شے تو قلندر کے لئے ہے
قلندر سے ایک مراد ’ کُل اندر ‘ بھی لیا جاتا ہے ۔ کہ عالمین اور کُل جہاں اس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے

Thursday, 25 October 2018

https://www.unnpakistan.com/%d8%b5%d9%88%d9%81%db%8c%d8%a7%d9%86%db%81-%d8%a8%d8%b5%db%8c%d8%b1%d8%aa/

صوفیانہ بصیرت

تحریر۔۔۔ ڈاکٹر سید فہیم کاظمی الچشتی
قرآن کی مخاطب پوری نوع انسانی ہے اور قرآن میں 756آیات کریمہ ایسی ہیں، جن میں انسان کو غورو فکر کرنے کی دعوت دی گئی ۔ قرآن نوع انسانی کے ان افراد سے مخاطب ہے ، جو بصیر ت والے او غورو فکر کرنے والے ہیں۔ جومظاہر قدرت پر غور کرتے ہیں ان کی ماہیت کوسمجھتے ہیں اور تہ درتہ حقائق ادھیڑتے ہوئے اللہ کی کاریگری ، صناعی کو دیکھ کر اللہ کی عظمت تک پہنچنے کی کوشش میں مسلسل مصروف رہتے ہیں۔ ان کے غورو فکر کے سلسلہ میں کہیں انقطاع واقع نہیں ہوتا۔ یہ غورو فکر مسلسل ہمیشہ قائم رہتا ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ قرآن ہرگز ہرگز ان قوموں اور لوگوں سے مخاطب نہیں ہے جو لکیر کے فقیر ہیں اور غوروفکرسے عاری ہیں۔ نوع انسانی کے ایسے افراد کو قرآن چو پائے قرار دیتا ہے بلکہ چوپایوں سے بھی بد تر۔۔۔قرآن انسان سے جس بصیرت کا تقاضا کرتا ہے، آج کا مسلمان اس سے کوسوں دور ہے۔ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص مذہب کاعالم ہو اوراسے سائنسی علوم کی شنید نہ ہو۔ بلکہ قرآن نوع انسانی کے افراد کو اس نہج پر دیکھنا چاہتا ہے کہ حامل قرآن سے ان گنت سائنسی علوم کے سوتے پھوٹیں اور قرآن کے منکر ملحد سائنسدان انگشت بدنداں رہ جائیں۔ شعوری وسعت کے بغیر قرآن اور قرآنی آیات کاصحیح مفہوم کسی انسان کے ذہن پر نہیں آشکارا ہو سکتا ۔جتنی زیادہ شعوری وسعت ہوگی اتنے ہی زیادہ قرآن کے معنی و مفاہیم ذہن پر آشکارا ہوں گے حضور ؐ پر اترا ہوا قرآن اورآپ کی تعلیمات و سیرت کسی ایک قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ پوری نوع انسانی کاعلمی ورثہ ہے۔ اس ورثہ سے لکیر کا فقیر بندہ مستفید نہیں ہوگا بلکہ وہ فیضیاب ہوگا جو اپنے آپ کو اس علم کااہل ثابت کرے گا اور یہ میراث اس ہی کو منتقل ہوگی اور یہ ایک ایسی ٹھوس حقیقت ہے کہ جس کو کسی بھی طرح جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ سن ہجری کی ابتدائی صدیوں میں مسلمان علمی لحاظ سے پوری دنیا کے امام تھے۔ ہر سو ان کے علوم کا طوطی بولتا تھا اور آج یہ حالت ہے کہ علم کے ہر ہر شعبے میں اغیار کے دست نگر ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے اندر وہ بصیرت، فہم اور علم پیدا نہ کر سکے جس کا تقاضا قرآن ان سے کر رہا تھا اور تعلیمات نبوی کر رہی تھیں۔ قرآن اور تعلیمات نبوی کو اگر کسی نے زندہ رکھا ہے تو وہ صوفیائے کرام ہیں۔ ان قدسی نفس حضرات نے جان جوکھوں میں ڈال کر رسول ؐ کی اس امانت کو محفوظ رکھا۔ وگرنہ سلاطین و بادشاہ تو صرف مظاہرات میں کھو کر اسلامی اور قرآنی تعلیمات کے حقیقی جوہر سے دور ہوچکے تھے۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ جب ہم موجودہ دورمیں سجادہ نشینوں ، گدی نشینوں اور پیروں فقیروں کودیکھتے ہیں تو اپنا سر پیٹ لیتے ہیں۔ ان کی طلسماتی دنیا عجیب و غریب ہے اور ان کے ہاں جو طور طریقے رائج ہیں ، ان میں قرآن فہمی اور تعلیمات نبوی کاکوئی عکس نظر نہیں آتا۔ صوفیاء کرام کی اکثر درگاہیں ان لوگوں کے قبضہ میں ہیں ، جو صوفیائے کرام کی تعلیمات ، بصیرت اور فہم سے بالکل نا بلد ہیں۔ 
اکثراولیائے کرام کے مزارات پر منشیات کی بھر مار ہوتی ہے۔ چرس کے نشے میں مدہوش لوگوں کوملنگوں کانام دے کر ان سے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ صوفیائے کرام کسی بھی قسم کے نشہ تمباکو نوشی وغیرہ کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ چہ جائیکہ نشہ کی اجازت دے دیں درباروں کے مجاور بھی اکثر اپنے مخصوص مسلک کا پرچار کرتے ہیں۔ حالانکہ اس چیز کا صوفیائے کرام سے قطعی تعلق نہیں ہے۔ ان مجاوروں اور سجادہ نشینوں کی شعوری ناتوانی کا یہ عالم ہے کہ اہل روحانیت جس کو بھان متی اور طلسمات وشعبدے سمجھتے تھے ، ان کو کرامات کا نام دے کر ان بزرگوں کی تعلیمات سے انحراف کیا جارہا ہے۔ حالانکہ یہ بزرگ اپنے دورمیں صرف صوفی ہی نہیں بلکہ سائنسدان بھی تھے ،انہیں ہر طرح کے علوم پر عبور حاصل تھا۔ سائنسی علوم کی تمام شاخوں اور شعبوں سے یہ قدسی نفس حضرات آشناتھے کیونکہ ایک روحانی بندے کی بصیرت سے مظاہرات کا ظاہر او رباطن پوشیدہ نہیں رہ سکتا، جو علم اورایجاد کا انکشاف ایک سائنسدان اپنی پوری زندگی تیاگ کر او رکھربوں ڈالرخرچ کرکے کرتاہے۔ وہ علم ایک صوفی کی نگاہ بصیرت پر بغیر کسی کوشش کے عیاں ہوتاہے۔ آج سائنس جو انکشافات کر رہی ہے، اس سے ہمارے اسلاف 14سو برس قبل واقف تھے۔ حضرت امام جعفر صادق ؑ سائنسی قوانین کا جو انکشاف سینکڑوں برس قبل کر گئے ، سائنس ابھی تک وہاں نہیں پہنچ پائی ہے۔ اسی طرح حضرت سید عبدالقادر جیلانی، حضرت شاہ ولی اللہ نے جن علوم کا انکشاف فرمایا، آج کی سائنس کھربوں ڈالر خرچ کرکے اورسینکڑوں برس کی عرق ریزی کے بعد وہی بات کہہ رہی ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ دنیا میری ہتھیلی پر رائی کے دانے کے برابر ہے۔ سلطان الہند حضرت معین الدین چشتی اجمیری ، حضرت خواجہ غریب نواز اپنے مرشد کے حضور خانقاہ میں 22سال پانیبھرنے کی خدمت سر انجام دیتے رہے جبکہ آپ نے 18سال کی عمر میں بیعت کی تھی۔ جب آپ کی عمر چالیس سال ہوئی تو مرشد نے اپنی خصوصی مجالس میں بیٹھنے کی اجازت اور کچھ عرصہ بعد انگشت شہادت اور بڑی انگلی سامنے کرکے حضرت خواجہ غریب نواز کومخاطب کرکے پوچھا۔ 
معین الدین ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہے؟ 
حضرت خواجہ معین الدین نے عرض کیا ’’ حضور ! آپ کی دوانگلیوں کے درمیان 18ہزار عالمین کا مشاہدہ کررہا ہوں‘‘ 
یہ اٹھارہ ہزار عالمین ہماری دنیا کی طرح آباد دنیا ہیں،جہاں انسان ،فرشتے اورجنات بستے ہیں۔ آج کی سائنس اس زمین کے علاوہ آج تک کائنات میں کسی دوسری آباد زمین تک پہنچنا تو درکنار کسی آباد زمین کو دریافت تک نہیں کرسکی۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ صوفیائے کرام سائنسدان نہیں ہیں۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ قرآن نوع انسانی سے جس بصیرت کا تقاضا کرتا ہے، وہ بصیرت صوفیائے کرام کو حاصل تھی اور صوفیائے کرام کے مزارات، آستانے اور درگاہیں ہم سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کی تعلیمات اور ان کے لافانی و عظیم کردار کا پرتو اور ان کی بصیرت ہمارے اندر پیدا ہو ۔ اگر ہمارے ہاں ان بزرگوں کے آستانوں پر بھنگیں کوٹی جاتی رہیں ، مسلکی و فقہی بے معنی مناظرے ہوتے رہے، رعونت اور ریاکاری کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا ہے تو ہم صوفیاء کرام کی بصیرت اور علم اور تعلیمات سے بہرہ ور نہ ہو سکیں گے۔ موجودہ دور میں ضروری ہے کہ اولیائے کرام کی درگارہوں پر جدید سے جدید لیبارٹیز اور رصدگاہیں قائم ہوں ۔ جدید اوراعلیٰ سائنسی علوم کی تدریس ہو۔ فلاحی ادارے قائم ہوں، جہاں محنت کرنے وا لے ضرورت مندوں کو امداد مل سکے۔ فری علاج ومعالجہ کے لیے ہسپتال قائم کیے جائیں۔ روحانی علوم کی سائنسی و علمی توجیحات کے ادارے قائم ہوں۔ اخلاق سنوارنے اور تعمیر کردار کے حوالے سے موزوں ماحول تشکیل دیا جا کر ادارتی سطح پر کوششیں کی جائیں۔ ماورائی علوم اور قرآن کے علوم پر عظیم الشان یونیورسٹیاں قائم کی جائیںیہ طریقہ تو سراسر اولیائے کرام اور تعلیمات نبوی ؐ کے خلاف ہے کہ چندنیم پڑھے لکھے مجاور اور سجادہ نشین ان درگاہوں کے متولی بن کر بیٹھ جائیں ، جہاں منشیات کا سرعام استعمال کیا جائے ۔ فخرو رعونت پر مبنی خشک مواعظ کہے جائیں، اپنی بڑائی بیان کرکے ریا کاری کے مظاہرے کیے جائیں۔ یہ سب کچھ خلاف شرع ، خلاف طریقت، خلاف اسلام اور خلاف قرآن ہے

Wednesday, 24 October 2018


وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُـهُـمْ ۘ اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّـٰهِ جَـمِيْعًا ۚ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْـمُ
اور ان کی بات سے غم نہ کر، بے شک عزت سب اللہ ہی کے لیے ہے، وہی سننے والا جاننے والا ہے۔
سورۃ یونس ۶۵

Monday, 22 October 2018

ﺩﺱ ﺭﻭﺣﺎﻧﯽ مشاہدات: ایک: ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺻﺤﻦ ﺳﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ۔ ﺁﭖ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺍﺟﮍﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﺍﻧﺎ ﺩﺭﺧﺖ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﺳﮯ ﮨﺮﮔﺰ‘ ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮧ ﮐﺎﭨﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮔﮭﺮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺁﺑﺎﺩ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ‘ ﯾﮧ ﻭﮦ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﺭﺧﺖ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ‘ ﺩﻭ: ﺟﺲ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ‘ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺭﺯﻕ ﻣﻠﺘﺎ ﺭ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺭﺯﻕ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ ﺁﭖ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ‘*ل ﺁﭖ ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ‘ ﺑﻠﯿﻮﮞ‘ ﮐﺘﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ‘ ﺩﺍﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﭽﻦ ﺑﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ‘ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺭﺯﻕ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻠﮯ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ‘ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﮐﺒﻮﺗﺮ‘ ﮐﻮﮮ‘ ﻣﻮﺭ‘ ﺑﻠﯿﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﻮﻧﭩﯿﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﯿﮟ؟ ﯾﮧ ﺩﺭﺍﺻﻞ ﻣﺰﺍﺭﺍﺕ ﭘﺮ ﻟﻨﮕﺮ ﮐﯽ ﺿﻤﺎﻧﺖ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺗﯿﻦ: ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮍﮮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮯ ﻋﺰﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺘﺎ۔ ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮯ ﻋﺰﺕ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻏﺮﺑﺎﺀ ﻣﯿﮟ ﮐﭙﮍﮮ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ‘ ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﺁﭖ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﺒﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﺩﺭﯾﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ‘ ﺁﭖ ﻣﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﮏ ﺑﺎﻋﺰﺕ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ‘ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﻣﺨﺎﻟﻒ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮯ ﻋﺰﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔا ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺳﺘﺮ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﯾﮟ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺮﮨﻨﮕﯽ ﮈﮬﺎﻧﭗ ﺩﮮ ﮔﺎ‘ ﭼﺎﺭ: ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﮦ ﺳﮯ ﺑﮭﭩﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺭﺍﮦ ﺭﺍﺳﺖ ﭘﺮ ﻻﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯾﺎﮞ ﮐﺮﺍ ﺩﯾﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﻧﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ‘ ﺁﭖ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﻏﺮﯾﺐ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﺍﺋﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﺮﺍﺋﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ‘ ﭘﺎﻧﭻ: ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺷﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﻻﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ۔ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﺳﮯ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ‘ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﮐﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺗﻮﺍﺿﻊ ﮐﯽ ﺩﯾﻦ ﮨﮯ‘ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻮﺍﺿﻊ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻻﻟﭻ ﮐﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ‘ ﺁﭖ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ‘ ﭼﮫ: ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻏﺮﺑﺎﺀ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﺍﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﺍﻣﭙﺮﻭﻭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ‘ ﺁﭖ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺩﻭﺍﺀ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻭﮦ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺮﯾﻀﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺛﺮ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ۔ ﺁﭖ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﻭﮦ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺍﺛﺮ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ‘ ﺳﺎﺕ: ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮞ تو ﺁﭖ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻠﯽ‘ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﮍﮎ ﺑﻨﻮﺍ ﺩﯾﮟ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮨﺮ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﮮ ﮔﺎ‘ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺑﻨﺪ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ‘ ﺁﭨﮫ: ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ‘ ﮐﻨﻮﺍﮞ ﮐﮭﺪﻭﺍ ﺩﯾﮟ‘ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﻮﭨﺮ ﻟﮕﻮﺍ ﺩﯾﮟ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﻟﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ‘ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ ﺁﮒ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﺮ ﺁﮒ ﮐﻮ ﺑﺠﮭﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ. ﻧﻮ: ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺑﮩﺘﺮ ﺩﻭﺳﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ‘ ﺁﭖ ﻻﺋﺒﺮﯾﺮﯼ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﺒﮭﯽ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ‘ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮨﺮ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺖ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ. دس ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ‘ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﭩﻤﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ‘ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻧﺒﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺳﺎﺩﮦ ﺗﮭﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻓﺮﻋﻮﻥ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻧﻤﺮﻭﺩ ﯾﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﭨﮭﮩﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﮯ ‘ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ ﺁﺯﻣﺎ ﻟﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ گا.

Sunday, 21 October 2018

کسی بھی پیر سے بیعت ہونے کا مقصد اہلِ بیت تک رسائی حاصل کرنا ہوتا ہے لہٰذا بیعت ہونے کے بعد بھی اس پر نظر رکھیں کہ آپ کا پیر اہلِ بیت سے مربوط ہے یا نہیں ورنہ بیعت کا مقصود و فائدہ حاصل نہ ہوگا